علامہ محمد اقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ نظر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک میرا
آسماں چیر گیا نالہء بے باک میرا
پیر گردوں نے کہا سن کے ، کہیں ہے کوئی
بولے سیارے، سر عرش بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا ، نہیں، اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہی ہے کوئی
کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سر عرش بھی انساں کی تک و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟
غافل آداب سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہیں
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے
عالم کیف سے داناء رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تیرا
اشک بےتاب سے لبریز ہے پیمانہ تیرا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ تیرا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ تیرا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ؟ رہرو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراھیم پدر، اور پسر آزر ہیں
باد آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا ، بت بھی نئے، تم بھی نے
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ہرجائی تھا
کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت امت مرسل کو مقامی کر لو
کس قدر تم پہ گراں صبع کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمھیں کہدو یہی آئین وفاداری ہے
قوم مذہب سے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جزب باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پرواۓ نشیمن تم ہو
بجلیاں جن میں ہو آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلام کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پھتر کے
صفحہ دہر سے باطل مٹایا کس نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی ، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
کیاکہا؟بہر مسلماں ہے فقط وعدہء حور
شکوہ بےجا بھی کرۓ کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاضل ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہیں باتیں ہیں؟
کون ہے تارک آئین رسول مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟
ہو گئی کس کی نگاہ طرز سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی تو نام محمد کا تمھیں پاس نہیں
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا تو غریب
امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی ، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے ہوگۓ دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الا دراک
خود گدازی ہم کیفیت صہبایش بود
خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود
ہرمسلماں رگ باطل لے لئے نشتر تھا
اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھیں موت کا خوف، اسکو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو
ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ، یہ انداز مسلمانی ہے
حیدری فکر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلام سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطا بیں ، وہ خطاپوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرۓ قلب سلیم
تخت فخفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی
خودکشی شیوہ تمھارا، وہ غیور و خودار
تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوۓ
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوۓ
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوۓ
بے عمل تھےہی جواں دین سے بدظن بھی ہوۓ
ان کو تہزیب ہر بند سے آزاد کیا
لاکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائی ہوا، بادیہ پیماں نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلیٰ نہ رہے
گلہ جور نہ ہو، شکوہ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے کیوں ، حسن بھی آزاد نہ ہو
عہد نو برق ہے، آتش زن ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے
ملت ختم رسلْ شولہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بہ انداز ہے خون شہیداں کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ ابھرتے ہوۓ سورج افق تابی ہے
امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کا ہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیریک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
نخل شمع استی و درشعلہ دود ریشہ تو
عاقب سوز بود سایہ اندیشہ تو
تو نہ مٹ جاۓ گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لئے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے ، یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتح امتحاں ہیں تیرے ایثار کا ، خوداری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مثل بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہواۓ چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ، تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمئہ موج سے ہنگامئہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشق محمدْ سے اجالا کر
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا ترنم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہوپھرمےبھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش می طوفان میں ہے
چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے
مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تیری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تیری
ماسوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تیری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تیری
کی محمدْ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
0 Comments