آدمی نامہ یا آرمی نامہ

 انور مقصود ان چند مزاح نگاروں میں سے ایک ہے جو الفاظ   کی  ہیرا پھیری کو جانتے ہیں   اس مہارت کا ایک فائدہ ہے کہ آپ پرانے کلام یا موضوعات کو موجودہ حالات اور واقعات پر برمحل استعمال کرتے ہیں جو بذات خود ایک اعلیٰ پاۓ کی فنکاری ہے 

اردو کے پہلے عوامی شاعر تھے نظیرؔ اکبر آبادی۔ ان کی مشہور نظم "آدمی نامہ" ھے جو میٹرک کے نصاب میں بھی شامل رھی ھے.... ڈان گروپ کا ایک اخبار "حریت اخبار" ھوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں نظیر اکبر آبادی کی برسی کے موقع پر  "آدمی نامہ" چھاپنے کا فیصلہ ہوا ۔ ایڈیٹر نے آدمی نامہ کی ’’د‘‘ کو ذرا سا سیدھا لکھ دیا، جب نظم پریس میں چھپنے کو پہنچی تو چھاپنے والا سمجھا کہ ’’ر‘‘ ھے، اس نے "آرمی نامہ" لکھ کر چھاپ دی۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔



"دنیا میں بادشاہ ھے سو ھے وہ بھی آرمی

اور مفلس و گدا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

زردار ھے نوا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

نعمت جو کھا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

ٹکڑے چبا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی


مسجد بھی آرمی نے بنائی ھے یہاں میاں

بنتے ھیں آرمی ھی امام اور خطبہ خواں

پڑھتے ھیں آرمی ھی قرآن اور نماز یہاں

اور آرمی ھی ان کی چراتے ھیں جوتیاں

جو اُن کو تاڑتا ھے سو ھے وہ بھی آرمی


فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا

شداد بھی بہشت بنا کر ھوا خدا 

نمرود بھی خدا ھی کہلاتا تھا برملا

یہ بات ھے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا

یہاں تک جو ھو چکا ھے سو ھے وہ بھی آرمی


اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر

یہ آرمی ھی کرتے ھیں سب کار دل پذیر

یہاں آرمی مرید ھے اور آرمی ھی پیر

اچھا بھی آرمی ھی کہلاتا ھے اے نظیرؔ

اور سب میں جو برا ھے سو ھے وہ بھی آرمی"


اگلے دن اخبار نکلتے ھی ایڈیٹر کو جی ایچ کیو سے کال آئی۔ ایڈیٹر نے ان سے معذرت کرتے ھوئے کہا کہ آرمی کی کوئی غلطی نہیں، اور ملبہ کاتب پر ڈالنے  کی کوشش کی ۔۔ مگر تب تک بہت دیر ھو چکی تھی۔  ایڈیٹر کی نوکری جاتی رھی اور وہ  ایڈیٹر انور مقصود تھے۔



Post a Comment

0 Comments