ڈاکٹرآفتاب عرشیؔ سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد، انڈیا مَیں اُس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فرازؔ یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری احمدفرازؔ کی شاعری کا خمیر عشقِ مجازی سے ا ُٹھا ہے ، جو فرازؔ کے یہاں ایک قوت کے طورپر نظر آتا ہے ۔ عشق کے اِسی جذبے سے فراز نےؔ ایک ایسا خواب بُنا ہے ،جو انسانی زندگی کے حق میں بہتری کا سامان فراہم کرتا ہے۔فرازؔ کے یہاں عشق اُس جذبے کا نام ہے ،جس کی بدولت دنیا کی کسی بھی جنگ کو جیتا جا سکتا ہے۔چناں چہ ان کی شاعری کا مرکزی خیال عشق ہے ۔ فرازؔ ؎ اِدھر اُدھر کے بھی کردار آتے جاتے رہے مرے سخن کا مگر مرکزی خیال تھی وہ عشق کے تعلق سے فرازؔ کا خیال ہے کہ عشقِ مجازی کے جذبے کی شدت ہی سے دیگراُمورِحیات کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اس لیے جو شخص عشق نہیں کر سکتا ،وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے وہ عشق میں خود کو لٹادینے کے درس کو عام کرنے میں یقین رکھتے ہیں ؎ لُٹ چکے عشق میں اک بار تو پھر عشق کرو کس کو معلوم کہ تقدیر سنور بھی جائے فرازؔ کے یہاں عشق ہی وہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر خدا تک پہنچا جا سکتا ہے۔ فرازؔ ؎ اے خدا آج اُسے سب کا مقدر کر دے وہ محبت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے فرازؔ نے دنیوی اذیتوں اور مصیبتوں کو عشق کے لیے ضروری خیال کیا ہے ؎ ؎ فرازؔ ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں یہی وہ جذبہ ہے جو فرازؔ کو اپنے عہد کے شعراسے ممیز کرتا ہے۔ راہِ طلب میں ملے ہوئے غم بھی فرازؔ کو عزیز ہیں۔کیوں کہ راہِ وفا یہیں سے کھلتی ہے ؎ ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں فرازؔ نے اپنے عشق کے جذبے کو اس مقام تک پہنچادیا کہ انسانی رشتوں میں عام طور پر رشتوں کی بنیادکے دو پہلوہوتے ہیں ددستی و دشمنی ، فرازؔ نے دشمنی جیسے رشتوں میں بھی عشق کا پہلو نکال کر یہ ثابت کیا کہ انسانی زندگی کو سب سے زیادہ پیار ومحبت کی ضرورت ہوتی ہے ؎ ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا مَیں کیا کروں مرا دشمن مجھے برا نہ لگا ٭ مَیں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے ان اشعار میں ایک جیسی کیفیت کا ذکر ہے دونوں جگہ فرازؔ اپنے دل سے مجبور ہیں تاہم فرازؔ کا اپنے دل پر قابو نہیں، عشق فرازؔ کے وجود کا ایسا حصہ ہے ۔ جس میں دشمن بھی اُسے اپنا معلوم ہوتا ہے۔ مگر ذہن کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو وہ خود کو ہی ناداں ٹھہراتا ہے ؎ تجھ سے بڑھ کر کوئی ناداں نہیں ہوگا کہ فرازؔ دشمنِ جاں کو بھی تو جان سے پیارا جانے یہی وہ نادانی ہے جسے فرازؔ بار بار کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ فرازؔ دشمنی کے انجام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انھیں اس بات کا پورا علم ہے کہ نفرت سے کچھ نہیں حاصل ہونے والا،بلکہ نفرت انسان کو دھیرے دھیرے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ تبھی تو انھوں نے کہا ؎ آگلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن اک میری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری فرازؔ کو معلوم ہے کہ دشمنی کی آگ میں دونوں جلتے ہیں نہ کہ صرف دشمن ، ایسی آگ میں جلنے سے بہتر ہے ۔ پیار و محبت کے پھول دلوں میں کھلائے جائیں ۔ کیونکہ یہ زندگی محبت کرنے کے لیے ہی بہت کم ہے ۔ تو اس میں نفرت کی گنجائش کہا ںسے نکالی جائے ۔ جبکہ ؎ آج دشمن کی موت کا سن کر یوں لگا مَیں بھی مر گیا کچھ کچھ دشمن کی موت پر رنج و ملال کسی عام انسان کا کام نہیں بلکہ یہ جذبہ عشق کے تحت ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ ایسے رشتوں میں بھی عشق کا پہلو نکال لینا ۔ فرازؔ کے فکری افکار کے بدولت ہی ممکن ہے ؎ وہ مروت سے ملا ہے تو جھکا دوں گردن میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے یہ جذبہ تبھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ جب انسان کا دل محبت سے لبریز ہو ۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے بنا پر دشمن کے بھی دل میں بڑی آسانی سے محبت کا دِیا روشن کیا جاسکتا ہے ۔ فرازؔ نے وہی کیا ، جس کے بدلے میں فرازؔ کو اتنی محبتیں لوگوں سے نصیب ہوئیں کہ فرازؔ کو یہ کہنا پڑا ؎ محبتیں تجھے اتنی ملیں کہ دل میں ترے نہ دشمنی نہ عداوت نہ ضد نہ بغض نہ کد مگر اس کے باوجود بھی فرازؔ کا دل کبھی لوگوں کی محبت سے بے زار نہیں ہوا ۔ بلکہ اور چاہت بڑھتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ فرازؔ کو خود اس بات کا اندازہ نہیں کہ آخر انھیں لوگوں کی کتنی محبتیں چاہئے۔ جبکہ صورتِ حال یہ ہے ؎ اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا یہی محبت کا جذبہ ہے جو فرازؔ کو ایک سچا عاشق بنا دیتا ہے۔جس کے عشق میں صداقت کے ساتھ ساتھ بے باکی صاف طور پر نظر آتی ہے ۔ عشق کے تعلق سے فرازؔ فرماتے ہیں ؎ عشق ہے نام انتہاؤں کا اس سمندر میں اعتدال کہاں یا پھر اپنے تجربے کی بنا پر عشق کے باب کے متعلق فرازؔ کا انوکھا نظریہ جو بالکل واضح ہے ؎ محبت اپنا اپنا تجربہ ہے یہاں فرہاد و مجنوں معتبر نہیں احمد فرازؔ کا محبوب خیالی دنیا کا محبوب نہیں جو تصوراتی دنیا کو آباد رکھے اور خواب و خیال میں ہی صرف نظر آئے۔ بلکہ فرازؔ کا محبوب اسی جیتی جاگتی دنیا کا ساکن ہے جس میں ہم آپ رہتے ہیں ۔ فرازؔ کے محبوب کو صرف محسوس ہی نہیں بلکہ دیکھا ، سنا جا سکتا ہے۔ دیگر شعراء کی طرح فرازؔ نے بھی اپنے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے اور تعریف ایسی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فرازؔ کا محبوب خیالی نہیں ہے ۔ جیسے کہ فرازؔ اپنے محبوب کی آنکھ کی تعریف کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ؎ اُس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فرازؔ رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی جہاں بیشتر شعراء نے اپنے محبوب کی آنکھوں کے لیے نرگس ، میخانہ ، پیالہ وغیرہ سے تشبیہ دی ہے وہیں فرازؔ نے سیدھے سادے انداز میں اپنے محبوب کے آنکھوں کی تعریف کی ہے۔ جس کا تعلق حقیقی زندگی سے براہِ راست معلوم ہوتا ہے۔ ان کے محبوب کی آنکھیں نرگس، میخانہ ، پیالہ جیسی نہیں بلکہ ایک عام انسان کے جیسی ہیں ۔ جس میں درد و غم کی وہ کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے جو مسلسل ہجر کے پہاڑ کو کاٹنے میں ہوتی ہے۔ر اتوں کو نہ سونے کی وجہ سے آنکھوں میں خمار نمایاں ہے۔ یہی تو فرازؔ کی فن کاری ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کی آنکھوں کو نرگس ، میخانہ ، پیمانہ، پیالہ نہیں کہا بلکہ ایک عام انسان کے درد کو محسوس کیا اور اپنے محبوب کی آنکھوں میں مکمل طور پر نشہ بھی جذب کردیا۔ اردو شاعری میں محبوب کے جسم کا بھی تصور عام رہا ہے ۔ فرازؔ نے بھی اپنے محبوب کے جسم کی تعریف کی ہے ؎ سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں فرازؔ نے اپنے محبوب کے جسم کی تصویر ایک نئے انداز میں کھینچی ہے۔ فرازؔ کے محبوب کی بناوٹ اتنی خوبصورت ہے کہ جب اُسے پھول بھی دیکھتا ہے تو وہ کش مکش میں پڑجاتا ہے کہ مَیں خوبصورت ہوں کہ فرازؔ کا محبوب ، اسی جلس میں وہ بار بار اپنی ہی قبائیں کو کتر کر دیکھتا ہے کہ اب شاید مَیں خوبصورت ہوں مگر اسے ہر بار محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک نئی تشبیہ ہے جسے ابھی تک اپنے محبوب کے بدن کی خوبصورتی کے لیے اردو شاعری میں پہلی بار استعمال کیا گیا ہے۔ محبوب کے لب کی تعریف تو اردو شاعری میں عام بات ہے کبھی میرؔ نے اپنے محبوب کے لب کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی تھی ؎ نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے فرازؔ نے بھی اپنے محبوب کے لب کو گلاب سے تشبیہ دی ہے۔ فرازؔ کے کلام میں میرؔ کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے فرازؔ کو میرؔ سے بھی عقیدت تھی ۔ سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں فرازؔ نے بھی بات وہی کہی مگر انداز نیا رکھا۔ کافر اردو شاعری کا محبوب کے لیے پامال استعارہ ہے ۔ جسے میردردؔ کا مخصوص استعارہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ فرازؔ نے کچھ اس طرح سے استعمال کیا ہے ؎ سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہوگئے اردو شاعری میں کافر اپنے عاشق کی کوئی بھی بات سنتا نہیں وہ جفا پرست ہوتا ہے ۔ اس کی کیفیت مورت سی ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کے لوگ سمجھا رہے تھے۔ کہ کہاں آپ اس کے عشق میں پڑگئے ہو ۔ وہ تو کوئی بات سننے کا بھی روادار نہیں۔ مگر وہ کافر اتنا دل آویز ہے کہ جو لوگ فرازؔ کو سمجھا رہے تھے ۔ وہی رفتہ رفتہ اس کافر کے حسن میں گرفتار ہوگئے ۔ایک اور شعر ملاحظہ ہو ؎ صورت تھی کہ ہم جیسے صنم ساز بھی گم تھے مورت تھی کہ ہم جیسے پجاری نہیں بھولے جو بھی اس کو دیکھتا ہے وہ اُسی کا ہوجاتا ہے۔ اسی کے حسن کے چرچے کرنے لگتا ہے۔ اپنے محبوب کو دیکھنے والوں کی کیفیت کو فرازؔ نے اس طرح سے بیان کیا ہے ؎ ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقا ً اپنا بھی حال ہے اب لوگو فرازؔ کا سا محبوب کی زلف کے چرچابھی اردو شاعری کا اہم موضوع رہاہے ۔ فرازؔ نے بھی اپنے محبوب کے زلف کی تعریف نئے انداز میں کی ہے ؎ ترے ہی طلعت و گیسو کی دھوپ چھاؤں ہے کہاں کی صبحِ بنارس کہاں کی شامِ اودھ رخسار کی بھی تعریف دیکھتے چلیں ؎ سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقین آیا کہ پھول کھلتے ہیں گلزار کے علاوہ بھی محبوب کی باتوں کی تعریف دیکھئے نئے انداز میں ؎ سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں فرازؔ اپنے محبوب کی باتوں کی کشش میں اس طرح سے گم ہو گئے ؎ اُس کی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرح میری سوچیں بھی پریشاں مرے بالوں جیسی فرازؔ کے محبوب کی باتیں اُس کی صورت کی طرح دل کش ہیں ۔ مگر جس طرح سے صورت کا راز نہیں کھلتا اسی طرح سے اس کی باتوں کا بھی راز نہیں کھلتا۔ جس کی وجہ سے فرازؔ کش مکش میں پڑ گیا ہے۔ اس کی سوچیں اُس کے بالوں کی طرح الجھی ہوئی ہیں ۔ یہ بالکل نئے انداز کا شعر ہے۔ جس کا سارا حسن محبوب کی باتوں میں اور سوچوں کے الجھن میں موجود ہے۔ بہرحال فرازؔ نے اپنے محبوب کے حسن و جمال کی خوب سے خوب تر تعریف کی ہے۔ اور اس دعوی کے ساتھ کہ ؎ یہ مرا حسنِ نظر ہے تو دکھادے کوئی قامت و گیسو و رخسار و دہن تم جیسے یا پھر ہونٹ ہیروں سے نہ چہرہ ہے ستارے کی مثال پھر بھی لاوے کوئی دوست ہمارے کی مثال ظاہر سی بات ہے کسی کا بھی محبوب اس کے لیے دنیا کا سب سے حسین و جمیل ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لیلیٰ کا حسن دیکھنا ہو تو مجنوں کی نگاہ سے دیکھو۔ ظاہری طور پر لیلیٰ کالی تھی ۔ جس میں کوئی خاص بات آپ کو نظر نہیں آئیگی۔ مگر فرازؔ نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ میرا حسن نظر نہیں ہے۔ میرے محبوب کے حسن کا کمال ہے۔یہ اور بات میرے محبوب کا نہ ہی ہونٹ ہیرے سے ہیں اور نہ ہی چہرہ ستاروں سا چمک رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی میرے محبوب کے جیسا ہونٹ ، چہرہ،قامت، گیسو ،رخسار،دہن وغیرہ اگر کسی اور کے محبوب کا ہو تو وہ میرے سامنے لائے۔ مَیں بھی دیکھو میرے محبوب کے حسن کے مقابل کون ہے ۔ مگر لوگ فرازؔ کے محبوب کو دیکھ کر اس نتائج پر پہنچے ہیں ؎ دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدو خال مگر لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی فرازؔ نے اپنے محبوب کے حسن کو اس بلندی پر پہنچا دیا ہے ۔ جہاں صرف فرازؔ کے محبوب کے ہی چرچے ہیں۔اور فرازؔ اپنے محبوب کے حسن کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ اور وصل کے مزے لوٹ رہے ہیں ؎ ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا کوئی تجھ سا ہو تو نام بھی تجھ سا رکھے فرازؔ کو یہ بھی نہیں برداشت کہ اس کے محبوب کا کوئی ہم نام ہو۔ کیونکہ فرازؔ جو خوبی اپنے محبوب کے اندر دیکھتے ہیں وہ کسی اور کے یہاں موجود نہیں۔ اب جب فرازؔ کے محبوب میں دنیا بھر کی خوبی موجود ہے ۔ تو ظاہر سی بات ہے ۔ اس کے اندر غرور کا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ وہ محبوب بھی ہے۔ویسے بھی اردو غزل کا محبوب حسین سے حسین رہا ہے۔ مگر ساتھ میں غرور تو اس کے خمیر میں شامل رہا ہے۔ تو فرازؔ کا محبوب کہا تک بچ سکتا تھا ؎ غرورِ دوست سے اتنا بھی دل شکستہ نہ ہو پھر اُس کے سامنے دامانِ التجا لے جا ایسا لگتا ہے کہ فرازؔ کو یہ پہلے سے ہی معلوم تھا ۔ محبوب کے اندر غرور کا ہونا ضروری ہے۔ تبھی تو وہ نصیحت کرتے ہیں کہ ہجر کے موسم آنے سے پہلے ہی اپنے محبوب سے التجا کر لو اسے منا لو! اب محبوب جفاپرست بھی ہوتا ہے ۔ وہ کہاں مانے گا۔ جس طرح سے بہار کے بعد خزاں کا آنا لازمی ہے اسی طرح سے وصل کے بعد ہجر کے موسم آتے ہیں۔ اردو شاعری میں وصل سے زیادہ ہجر کو اہمیت دی گئی ہے۔ سو فرازؔ بھی اپنے محبوب کے ہجراں میں رات دن گزار رہے ہیں ؎ کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے ٭ رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ ٭ ہُوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد اب معلوم کہ تُو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی ٭ ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تُو کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تُو ان اشعار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ فرازؔ اس سے پہلے وصل کی لذت اُٹھا چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب ان کے لب پر فریاد ہے۔ مگر ہزار منت و درماں کرنے کے بعد بھی فرازؔ کا محبوب ماننے کو تیار نہیں ہے اور اب فرازؔ ہار کے بھی حوصلے کی بات کرتے ہیں ؎ مَیں تجھے کھوکے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تُو نے کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے اس کے بعد بھی فرازؔ اپنے محبوب کی جفا سے پریشان نہیں بلکہ اسے ہدایت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہاں بھی فرازؔ نے محبت کا پہلو نکال لیا ؎ تُو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے فرازؔ اپنے محبوب کی جفا سے نہیں بلکہ اس کی نفرت سے پریشان ہیں ۔ فرازؔ محبت سے بات چیت کے قائل ہیں۔ وہ ہر معاملے کو محبت سے سلجھانے کے قائل ہیں۔جہاں محبت ہے وہاں زبردستی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس لیے محبت کے معاملے میں وہ کسی طرح کی زبردستی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔محبوب کی خوشی میں وہ اپنی خوشی شامل کر کے خود ہی ترکِ تعلق کی پہل کر دی ؎ ہمی نے ترکِ تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اُس کا فرازؔ کے اس رویے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرازؔ زندگی کا شاعر ہے۔ ہجر میں بھی محبوب کی خواہش کا پورا خیال رکھا ہے۔اور محبوب سے بچھڑنے کے بعد بھی زندگی جینے کا سلیقہ لوگوں کو سکھاتا ہوا نظر آتا ہے ؎ کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اُس سے وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا ٭ حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ اس سمندر میں بس موجِ فنا راستہ ہے اور اب محبوب کی یاد کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ؎ ایسا گم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی ٭ ہم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں دونوں شعر نئے انداز کا ہے بلکہ اردو شاعری میں تہوار میں گم ہونے کی تشبیہ کسی کے یہاں بھی نظر نہیں آتی۔محبوب کی تڑپ اور بے چینی صاف طور پر نمایاں ہیں ۔اور فرازؔ اعتراف کرتے ہیں ؎ کب مجھ کو اعترافِ محبت نہ تھا فرازؔ کب مَیں نے یہ کہا سزائیں مجھے نہ دو مگر کبھی کبھی عاشق کی بھی اَنا جاگ جاتی ہے ۔ سو فرازؔ کی بھی اَنا بھڑک گئی ؎ مجھ سے بچھڑکے تُو بھی روئے گا عمر بھر یہ سوچ لے کہ مَیں بھی تری خواہشوں میں ہوں ٭ مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی وہ اِس طرح کہ تجھ پہ بھروسا بلا کا تھا محبوب کسی کا بھی ہو ،اسے اپنے محبوب پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ یہ سچے عشق کی معراج بھی ہے۔ مگر محبوب ہمیشہ سے اردو شاعری کے عاشق کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا۔اگر ایسا نہ ہو تو محبوب کی اہمیت ہی کیا ہے ؎ مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی وہ اِس طرح کہ تجھ پہ بھروسا بلا کا تھا ٭ بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے فرازؔ کا محبوب محل میں رہنے والی شہزادی نہیں بلکہ متوسطہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی ایک سمجھ دار دوشیزہ ہے جو عشق کے پیچ و خم سے واقف ہے۔ جو عشق تو کرتی ہے مگر اظہار نہیں کرنا چاہتی۔ مگر فرازؔ کے بے باک لہجے کی صداقت میں ، فرازؔ کو دل ہی دل میں محبت کرتی ہے۔ جسے ظاہر نہیں ہونے دیتی ۔ مگر فرازؔ اس راز کو بھی جاننے میں کامیاب ہیں کہ میرے محبوب کے دل میں کیا ہے ؎ تُو نہ مانے گا مگر خلوتِ دل میں تیری یار ! اکثر نہ ہی سہی بگاہے تو مَیں ہوں عشق میں یہ اعتمادتب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب عاشق کو خود پر بھروسہ ہو ، اور فرازؔ کو خود پر بے پناہ بھروسہ ہے۔ تبھی تو کہا ؎ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں تھے جانِ فرازؔ کہ تجھ کو ساری خدائی کے بعد یاد آئے تاہم فرازؔ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میرے عشق میں وہ شدت ہے جس کی وجہ سے دن رات میرا محبوب مجھے کو یاد کیا کرتا ہے۔ اور مَیں اس کے لیے تڑپتا ہوںیہ عشق نہیں تو اور کیا ہے کہ عمر کے آخری ایام میں بھی اپنے محبوب کے دیدار کے لیے تڑپتے ہیں ۔ جس کا ذکر فرازؔ نے اپنی زندگی کی آخری غزل میں کچھ اس طرح سے کیا ہے ؎ غمِ حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی فرازؔ کے یہاں عشق ان کی ذات کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ کہ فرازؔ اور عشق کو الگ کر دیا جائے تو فرازؔ کی شخصیت میں کھوکھلا پن آجائے گا۔فرازؔ کی خاص طور پر غزلیہ شاعری میں ایک ایسے بے باک عاشق کی شکل ابھرتی ہے۔ جو دنیا کے غم کو اپنے قلب میں بھرنا چاہتا ہے ۔ اور اس کے بدلے میں محبت واپس کرنا چاہتا ہے۔ فرازؔ کے محبت کے درس میں بے باکی کے ساتھ ساتھ صداقت ہونے کہ وجہ سے فرازؔ کے اشعار لوگوں کے ذہن میں گھر بنا لیا کرتے ہیں ۔بعض اوقات فرازؔ کا عشق عام زندگی کی داستان بن جایا کرتا ہے۔ فرازؔ کے یہاں عشق محض ایک کڑواہٹ نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جو آدمی کو انسان بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ڈاکٹرآفتاب عرشی x
0 Comments