مار خور


                                             ریاض حسین داور



میں ایک مارخور ہوں برف پوش پہاڑوں اور چوٹیوں سے مجھے محبت ہے یخبستہ ہواؤں اور پرخطر گھاٹیوں میں اٹکیلیاں کرنا میرا رومانس ہے اگر چہ میری پیدائش گلگت شہر کے بالائی گاؤں برمس میں ہوئی مگر میں برمس جٹیال سکوار نپورہ اور کارگاہ کے جنگلات کا مشترکہ پروردہ ہوں۔یہاں  وہاں شکاریوں سے بھاگ چھپ کر ابھی تک زندہ ہوں میرے جسم پر کئی ناتجربہ کار شکاریوں کے دیے ہوئے گھاؤ ہیں۔ میری  جنم بھومی کے لوگوں میں ایک عادت مشترک ہے ان کے پاس بندوق نا بھی ہو تو وہ پتھروں سے بھی مجھ پر حملہ کرتے ہیں پتا نہیں میرے ساتھ کونسی دشمنی نبھا رہے۔


ایک تو ان علاقوں میں جو صحیح طرح سے ناک صاف نہیں کرسکتا وہ بھی اور جسکا بیوی کے ساتھ جھگڑا ہو وہ بھی منہ میں نسوار ڈال کر بندوق اٹھا کے  میرے پیچھے جنگل پہنچ جاتا ہے جسکی وجہ سے میرے کئ عزیزو اقارب اپنی جان سے ہاتھ دھو کر ان کی جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں ایک دن صبح سویرے جب میرے دادا جان کو شکاریوں نے ایک تنگ گھاٹی میں گھیر کر  مارنے کی کوشش کی تو دادا جان نے ہمیں خفیہ راستہ بتا دیا اور آ خری وصیت یہ کی کہ شمال مغربی سرحدی پہاڑوں کی طرف جاؤ اب میں شکاریوں کو اپنی طرف متوجہ کر تا ہوں یہ کہہ کر خود کو گھائ میں گرا دیا جب ہم نے دیکھا کہ شکاری کمیں گاہوں سے نکل کر دادا جان کے پاس جمع ہوچکے ہیں تو ہم نے ایک چٹان ان پر گرا دی جس سے تین چار شکاری زخمی ہوئے اور ہم مغرب کی طرف بھاگ گئے اب ہمیں نپورہ اور کارگاہ کے جنگلات تیزی سے عبور کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان علاقوں کے شکاریوں کا آ پس میں ربطہ رہتا ہے وہ ایک دوسرے کو فون کر کے ہماری نقل و حمل کے بارے میں ایک دوسرے کو بتاتے رہتے ہیں اور جہاں شکار ہوتا ہے یہ اپنا حصہ لینے وہاں پہنچ جاتے ہیں یعنی ڈیڈھ دو کلو گوشت کے لئے انہوں نے پورا نیٹورک بنایا ہوا ہے۔ان کے علاؤہ چرواہوں کے کتے بھی خواہ مخواہ کسی حد تک ہماری دشمنی نبھاتے ہیں حالانکہ ایک دو مرتبہ تنہائی میں ان کو سمجھا بھی دیا ہےکہ اگر ہم تمہارے ہتھے  چڑھے بھی تو تمھیں وہیں چبائ ہوئ ہڈیاں ملی ہیں مگر وہ 🐕 کیونکہ ہؤا جو نصیحت پکڑے لے ۔دادجان کی قربانی رنگ لے آئی ہم نپورہ اور کارگاہ کے جنگلات سے جان بچا کر ہینزل سے ہوتے ہوئے شروٹ کے جنگلات میں پہنچ گئے ۔یہاں کے جنگلات کا حال بھی برمس کے جنگلات جیسا ہے یعنی بےدریغ کٹائی جاری ہے ابھی بھی تین چار گدھوں پر لکڑیاں لادی جارہی تھیں ۔صلع مشورے کے بعد فیصلہ ہوگیا کہ رات کو شروٹ کراس کر کے بارگو کے پہاڑوں پر چڑھا جاےء ۔رات کی تارکی میں ہم آ ہستہ آ ہستہ شروٹ آ بادی سے نکل کر پولیس بیرل پر پہنچے جہاں محکمہ جنگلات کا ایک بڑی مونچھوں والا پتلا سپاہی سو رہا تھا اس کی فرص شناسی دیکھ کر ہمارے ایک دو بچوں نے اس کے بوسے بھی لیے مگر وہ شاید شروٹ پولیس کے ہاتھوں جوئے میں لٹ کر نیند والی گولیاں لے بیٹھا تھا خیر ہم  لکڑی کا پل کراس کر کے بارگو کے پہاڑوں پر چڑھ گئے چرتےچراتے ہم بارگو کا صحت افزا مقام ہوپر پہنچ گئے جو کہ بیر کے درختوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا موسم بہار میں گلگت کی جو چیزیں مست کر دیتی ہیں ان میں سے ایک بیر کی خوشبو ہے  خوبصورتی کے علاؤہ اس مقام کی ایک  اور خصوصیت ہے کہ جب گلگت و مضافات میں شہتوت اور خوبانی کا سیزن ختم ہو تا ہے تب یہاں شروع ہوتا ہے یہاں عارضی مکانات بھی ہیں جس کی وجہ سے انسانی شر کا خدشہ تھا ہم اوپر چوٹیوں کیطرف بڑھے۔


چوٹیوں کے دوسری طرف نلتر کی خوبصورت وادی تھی جہاں بانت بانت کے انسان نظر آ رہے تھے شام تک ہم نلتر کے نظارے کرتے رہے اور پھر رخت سفر باندھا اگرچہ بچوں اور ماداؤں کی شدید خواہشتھی کہ کچھ دن نلتر میں رکا جائے  مگر  میں نے دور سے ہی گجروں کے تیور دیکھے تھے جو بتا رہے تھے اگر موقع ملے تو وہ ہم سب کو الٹا لٹکا کر ہماری کھال اتاریں اور بطورِ نسالو ہم سے پوری سردیاں استفادہ کریں میں نے سمجھایا کہ جان ہے تو جہان ہے آ گے بڑھو۔پھر ہم گھومتے پھرتے چھپروٹ نالہ پہنچ گئے نیچے کافی سارے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ نظر آ رہے تھے  ایک عمررسیدہ بکرا تین چار بکریوں کے ساتھ کافی اونچائی پر آ گیا تھا اس سے سلام دعا کے بعد یہاں کے لوگوں اور مارخوروں کے مابین تعلقات کے بارے میں دریافت کیا تو ایک نظر اس نے ہمارے بچوں کو دیکھا اور کہا  میاں  گلگت وغیرہ میں تو لوگ تمہارا شکار اپنے کھانے کے لیے کرتے ہیں یہاں کے ظالموں نے تو تمہارے نام کے ہوٹل کھول رکھے ہیں جہاں صرف تمہارا گوشت ملتا ہے جہاں دور دراز سے ایسی ایسی فربہ توندوں والے کالے پیلے لوگ آ جاتے جن کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ انہوں نے اپنے علاقوں کے گدھوں تک کو نہ بخشا ہوگا اس کے ساتھ وہ زور زور سے کھانسنے لگا شاید وہ ہمیں بھاگنے کا کہہ رہا تھا یا چرواہوں کو ہماری مخبری کررہا تھا ہم گولی کی طرح وہاں سے نکلے شام تک ہم خان آ باد کے پہاڑوں پر تھے سامنے نگر گلمت کی راکاپوشی بےداغ برف اوڑھے کھڑا تھا چودویں کا چاند بھی چاندنی پہنے اس کے سامنے تھا خان آ باد سے راکاپوشی اور چاند کا یہ منظر اس قدر دلکش تھا کہ  ہم اپنی جان کا خوف بھلا کر بت بنے رہے تب ہوش میں آ ئے جب چاند بچھڑ رہا تھا ۔صبح تک ہم نگر کی خوبصورت وادیوں جھیلوں آ بشاروں کو الوداع کہہ کر ہنزہ کے پہاڑوں پر تھے گھومتے پھرتے شام تک ہم گوجال پہنچ چکےتھے


گوجال کے پہاڑی سلسلے کافی وسیع وعریض ہیں چین روس افغانستان اور ہندوستان کے اندر تک جاتے ہیں یعنی یہاں کے آ زاد جانوروں کے پاس ملٹی نیشنل  پاسپورٹ ہوتا ہے  خیر  یہاں مقامی بھیڑ بکریوں سے ملاقات ہوگئی تو پہلا سوال اپنی ذاتی اور انسانی رویوں پر کیا تو  ایک محترم قسم کے بکرے نے  شستہ اردو میں فرمایا اجئ کسی کی کیا مجال جو آ پ کی ذاتی کو ٹیڈھی نگاہ سے دیکھے اگر کوئی غلطی سے ہماری ذاتی میں سے کسی کی جان لے تو معاملہ  جرگہ وغیرہ میں صلح صفائی سے حل ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی تم پر حملہ کرے یا قید کرے تو اس کو نہ صرف جرمانہ ہوتا ہے بلکہ مہینوں قید بھی ہو جاتی ہے یہ سن کر پہلے تو ہم نے مرحوم دادا پر فاتحہ پڑھی پھر ملکر دادا جان زندہ باد کے نعرے لگائے۔


یہاں ہمارا شکار تو منع ہے مگر  کبھی کبھار  مقامی لوگ گوروں کو لاتے ہیں اور  سب سے بڑے سینگوں والے مارخور کی نہ صرف مخبری کرتے ہیں بلکہ اس تک پہنچنے کی سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔اس کا ہم برا بھی نہیں مناتے کیونکہ یہ سال میں ایک آ دھ دفعہ ہوتا ہے ۔مگر زیادہ تر لوگ ہم سے پیار کرتے ہیں  مختلف ممالک اور علاقوں کے لوگ آ تے ہیں ہماری فلمیں شلمیں بناتے ہیں اس طرح شہری سوغات بھی چکنےکو   ملتیں ہیں۔یہاں گرمیوں میں خوشگاءو سے بھی ملاقات رہتی ہے ان کا جسسہ تو کافی بڑا ہے چہرہ و سینگ رعب دار ہیں  مگر وہ انسانی غلامی پر  قانع ہے انسانی طبیلے کو اپنی دنیا سمجھ کر جی رہا ہے  میں سمجھتا ہوں جس دن خوشگاءو  غلامی کی نکیل توڑ ڈالے گا ان برفیلے پہاڑوں کا ابدالی بن  جائے گا   خوش گاؤ کے پالتو ہونے کا ہمیں فائدہ یہ ہے کہ گوشت خور انسان کا بھیڑ بکریوں کی طرح یہ بھی آ سان ذریعہ ہے جس سے ہم پر دباؤ کم پڑتا ہے


انسانوں کے بعد ہمیں زیادہ خطرہ چیتا سے ہے  جو ان پہاڑوں میں آوارہ پھرتا رہتا ہے کم بخت کو ہمارے خون کی ایسی لت لگی ہے کہ وہ ہر پرخطر جگے پر داؤ لگاتا ہے اس نے دشوار گزار گھاٹیوں اور گہری کھائیوں کے تنگ اور پیچیدہ راستوں سے گزرنا سیکھا ہے جب سے سیاسی پارٹیوں نے اسے اپنا سیاسی نشان بنایا ہے  اس کا حوصلہ اور بڑ گیا ہے لیکن ہمارے قبیلے میں بھی ایسے  بہادر خودکش گزرے ہیں جو چیتے کو لیکر گہری کھائیوں میں کود جاتے ہیں۔ چیتا اپنی طاقت کا بےجا استعمال کر کے انسانوں کا دشمن اول  بن چکا ہے  آ زاد  بھیڑ بکریوں پر تو حملہ کرتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی ترنگ میں آ کر طبیلوں میں گھس جاتا ہے اور آ تنگ مچاتا ہے ان حرکات کی وجہ سے اس کا حلقے دشمناں وسیع ہوچکا ہے یعنی وہ ان پہاڑوں کا شکتی کپور بن چکا ہے 


بہرحال بنسبت گلگت یہاں زندگی آ مان میں ہے  چاروں طرف گلیشرز ہیں ان کا حجم بھی سال بہ سال سکڑ رہا ہے ان پر بھی انسانی شر لگ چکا ہے 


اگرچہ یہاں وہ گھاس پھوس کے میدان و جنگلات نہیں جو گلگت و نگر میں ہیں


            یہاں کی وادیاں خلد بریں ہیں


           یہاں کا ہر پہاڑ اک دیوتا ہے


         شہد شیرین چشمے بیل بوٹے


         خضر فرصت میں آ کر بیٹھا ہے ۔۔۔۔مگر یہاں بھی دل لگانے کو قدرت نے بہت کچھ بنا رکھا ہے 


خرگوش باز چکور گلہریاں اور بانت بانت کے رنگنے والے کیڑے مکوڑوں  سے ہمارا آ س پڑوس بھرا ہوا ہے  جن کے ساتھ صبح و شام ہلیو ہائی ہوتی ہے  اکثر باز خرگوش کا شکار کرتا ہے  وطندار ہونے کے ناطے کئ بار ہم نے خرگوش کو کچھ حفاظتی اقدامات کرنے کو کہا مگر  جب کہیں تاذہ خوراک دیکھتا ہے تو وہ  سب کچھ بھول جاتا ہے  بقول شخصے"اچھا کھانا ہو تو مجھے موت کی پرواہ نہیں ہوتی"  ایک دو بار ہم نے باز کو بھی باز آ نے کو کہا تو اس نے الٹا ہمارے بچوں پر حملے کرنا شروع کردیا  اس کے پاس ائیر فورس ہے ہم اس کا کیا بگاڑا سکتے ہیں ہم نے بھی مسلمانوں کی طرح ظلم سے چشم پوشی کرلی۔ یہاں پر گلہریوں کے کئ قبائل آ باد ہیں  جوپیٹ  پوجا کے دوران اپنا حفاظتی اقدامات بھی کرتے ہیں یعنی ہر چار پانچ میں سے ایک کھڑا ہو کر باز شاہین چیل وغیرہ پر نظر رکھ رہا ہوتا ہے ان کے علاؤہ چکوروں بٹیروں اور جنگی کبوتروں کے قبائلی بھی آ باد ہیں۔


گئی سردیوں کی بات ہے  کہ ایک گورے نے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے ایک جوں سال بڑے سینگوں والے مارخور کا شکار کیا جس کی منگنی کے دن چل رہے تھے اس کی منگیتر  کے حسن کے چرچے کوہ قاف تک جا چکےتھے مرحوم کی بہادری کے قصے وادیوں پہاڑوں میں پھیلے ہوئے تھے  ۔مرحوم کی منکوحہ خوبصورت ہونے کے ساتھ  بہادروں کی قدردان بھی تھی ورنہ ممی ڈیڈی ٹائب مارخور اس کی گلی میں نت نئے پھولوں اور حسرتوں کی دکانیں سجائے بیٹھے رہتے تھے


ایک دن یہاں پہاڑی جانوروں کا کوئی تہوار تھا جس کی مہمان خصوصی   وہی مرحوم کی منکوحہ تھی بڑے بڑے سورما اس شوخ کی نظر میں آ نے کے لئے  داؤ پیچ لڑا رہے تھے اور وہ ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی ہم سے بھی رہا نہ گیا اور محبت جاناں میں کود گئے  پھر زور کی لڑائی شروع ہوگئی  ہماری ٹکروں کی گونج  نچلی وادیوں تک جانے لگی دور دور سے سیاح اور چرواہے دوربینوں سے لڑائی دیکھنے لگے ہم نے باری باری دس بارہ مارخوروں سے پنجہ آزمائی کر کے شکست دیے کر بھگا دیا چھ سات گھنٹے کے اس مقابلے میں بلاآخر جیت ہماری ہوئی خوش قسمتی سے ہمارے سینگ سلامت رہے ورنہ ٹوٹے سینگوں والا مارخور اور بغیر بالوں والا جوان رومانیت کے باب سے نکل جاتے ہیں 


پھر کیا تھا مارخونی کو اس کا ہیرو مل چکا تھا  زندگی رومانیت کی پٹڑی پر چڑھ گئی  چین روس افغانستان اور ہندوستان کے سیر سپاٹے ھونے لگے


اس نئی رشتہ داری کا ایک فایدہ یہ ہوا کہ ہمیں یہاں کی مقامی شہریت مل گئی (یہ ترکیب ہم نے باہر سے آ کر گلگت بلتستان میں بسنے والوں سے سیکھا ہے ) ورنہ مقامی جانور ہمیں مہاجر سمجھتے تھے اب اگر کبھی یہاں چناؤ ہوتا ہے تو نہ صرف ہم ووٹ ڈال سکتے ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں


زندگی مست گز رہی تھی ک ایک دن کوؤں کا ایک جنھڈ چوٹیوں پر اترا  سلام دعا  ہونے پر پتا چلا ان میں سے ایک کا تعلق میرے آ بائی جنگل سے  ہے  اس نے بتایا کہ تمہیں گلگت کے سارے شکاری ڈھونڈ رہے ہیں کیونکہ تم نے جو چٹان گرا دی تھی اس سے دو شکاری مر گئے تھے جس کی وجہ سے تم ان کی most wanted لسٹ میں آ چکے ہو  مطلب میں ان کے لئے اسامہ  بن لادن بن چکا تھا   کوے نے مزید پالش کر کے بتایا  مرنے والوں کے ایک جذباتی عزیز نے تمہارے سر  کا انعام بھی رکھا ہے میں نے پوچھا کتنا تو کوے نے کہا ۔ ۔جتنا ہندوستان کی سرکار نے گبر پر رکھا تھا۔ کوے نے ایک اور ناخوش خبری سنائی کہ اس نے برمس کے ایک بڑی مونچھوں  والے شکاری کو سست میں کئی اور شکاریوں کے ساتھ چائے پیتے  مونچھوں کو تاؤ دیتے دیکھا ہے   اس خبر سے میرے کان کھڑے ہو گئے  میں نے سنا تھا کوے گلگت میں مہماں کی خبر دیتا ہے مگر یہ تو یورپ کا کوا  نکلا جو موت کی خبر دے رہا تھا  میں تھوڑا متفکر ہوگیا مگر یہ سوچ کر خیال کو جھٹک دیا کہ یہاں ایک تو مارخوروں کی آ بادی زیادہ ہے دوسرا پہاڑی سلسلے وسیع ہیں وہ مجھ تک نہیں پہنچ پائیں گے  اپنے طور پر  نچلی وادیوں میں جانے سے اعتراض کرنے لگا  مگر نیچے تو اترنا ہی پڑتا ہے کیونکہ سردیوں میں چوٹیوں پر برف کی دبیز تہیں سبزے کو چھپا دیتی ہیں" رہیں گر دلی میں تو کھائیں گے کیا " ہمیں مجبوراً نیچے اتر نا ہی پڑا جہاں بھیڑوں کے ایک ریوڑ سے ملاقات ہوئی جو بتا رہے تھے کہ رات کو طبیلے کے دروازے پر  کچھ لوگ چرواہے سے  ایک بڑے سینگوں والے مارخور کے بارے میں دریافت کررہے تھے جس کے سینے پر گولی کا نشان ہے  خبر مستند تھی کیونکہ یہ نشان بھی  مونچھوں والے شکاری کے  چھوٹے بھائی کا دیا ہوا تھا جو فائرنگ کے دوران آ نکھیں بند کرتا تھا لیکن اس دن اسکا نشانہ صحیح لگا تھا مگر کارتوس دو نمبر تھی جس کی وجہ  میری جان بچی تھی


خبر سن کر میں واپس چوٹی کی طرف جانے لگا میں خوش تھا کہ میرا جاسوسی کا نظام موثر ہے اگر اس طرح جانوروں کا بھی کوئی الائنس پلیٹ فارم ہو تو ان کی مشکلات کم ہو سکتیں ہیں   


اگلے دن صبح کے وقت میں ایک چٹان پر بیٹھا نیچے وادیوں کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں  شاہراہِ قراقرم پر گاڑیاں چین کی طرف جا رہیں تھیں اور چین سے آ رہی تھیں اچانک میں نے محسوس کیا کہ میں ٹارگٹ پر ہوں قریب ہی ایک چیتا مجھ پر جھپٹنے والا تھا میرے پاس بھاگنے کاموقع نہیں تھا میں نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا  میں کھڑا ہوگیا اس نے مجھ پر چلانگ لگائی اس کے پنجے میرے کولہوں پر اس کے دانت میری پیٹھ پر میری وزن سے وہ گرا اس کے اوپر پیٹھ کے بل میں گرا  میرے سینگ اس کی پیٹ میں پیوست ہو گئے میں نے ایک دو جھٹکے دیے تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی میں اپنی پوری قوت سے اٹھ کھڑا ہوا تو اسکی انتڑیاں باہر آ گئیں چیتا مر چکا تھا میں فاتحانہ انداز میں برف پر  بیٹھ کر  گاڑیاں دیکھنے لگا مگر میری چھٹی حس نے بتایا کہ میں پھر نشانے پر ہوں میں نے دیکھا کہ شکاریوں نے گھیرا ہے جو میرے اور چیتے کی لڑائی دیکھ رہے تھے بلکہ وہ موبائل سے اس کی ویڈیو بھی بنا رہے تھے اچانک بڑی مونچھوں والا شکاری سامنے  آ یا اس نے دوسرے شکاریوں کو گولی چلانے سے منع کیا سارے شکاری سامنے آ گئے   مجھے دیکھ کر مسکرائے اور واپس چلے گئے۔


شام تک چیتے اور مارخور کی لڑائی کی ویڈیو ساری دنیا میں پھیل چکی تھی اپنے دفاع میں لڑے جانے والی اس لڑائی نے محروموں اور محکوموں کے حوصلے بلند کردیے تھےسبز خورے، درندوں سے بڑہ نے لگے تھے میں نے درندوں کے خلاف مزاحمت کی داغ بیل ڈالی تھی جس کی گونج  نہ صرف افریقی جنگلوں تک گونجی تھی بلکہ اسرائیل و ہندوستان و چین کے علاؤہ ان تمام ممالک کے ایوانوں  تک گئی تھی جو مجبوروں اور کمزوروں کا استحصال کر رہے تھ

Post a Comment

0 Comments