نومبر کے آخری دن تھے کہ جناب منشا یاد نے کہا ۔ جناب ممتاز مفتی کے " روغنی پتلے " آ گئے ہیں ۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں آپ کو اظہار خیال کرنا ہو گا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تقریب دسمبر کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے ۔ تھکے ہوئے جسم اور نچڑے ہوئے ذہن نے معذرت کا مشورہ دیا ۔
مگر انکار نہ ہو سکا ۔ معاملہ ممتاز مفتی کا تھا ۔ جس کو میں ادب کا مفتی اعظم سمجھتا ہوں ۔
منشا صاحب سے تو میں نے کہہ دیا تھا کہ :
" اچھا جوان اللہ مالک ہے "
پاؤں تلے سے زمین اس وقت نکلی جب اگلے دن محترمہ فریدہ حفیظ کے دعوت نامے سے یہ معلوم ہوا کہ تقریب دو دسمبر کو ہو رہی ہے ۔ بخدا میں بھول ہی گیا تھا کہ دو دسمبر کی تاریخ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہی آ جائے گی ۔ میں گھبراہٹ میں بڑ بڑایا۔
" لینا کہ چلا میں "
اتفاقاً اس وقت میرے پاس ایک کرنل صاحب تشریف رکھتے تھے ۔
وہ بولے ۔
" کہاں چلے ہو "
میرے یہ دوست ریٹائرڈ کرنل ہیں ۔ ریٹائروں کے پاس ریٹائر ہی آتے ہیں ۔
بہر کیف میں نے کرنل سے اپنی الجھن بیان کی کہ گزشتہ دو ہفتوں میں دو فرمائشی مضمون لکھ چکا ہوں ۔ اب مجھے ممتاز مفتی پر مقالہ لکھنا ہے ۔ ممتاز مفتی کو ٹرخایا بھی نہیں جا سکتا ۔ میں اس کی تحریر کا عاشق ہوں ۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس ایمرجنسی میں اب میں اس سمندر کو ، کوزے میں کیوں کر بند کروں ۔
" بند " کے الفاظ پر کرنل صاحب کی خاموشی کا " بند " ٹوٹ گیا ۔ کڑک کر بولے ۔
" ہم بند کریں گے "
کرنل صاحب ممتاز مفتی سے واقف تھے ۔ ان کی " گہماگہمی " اور " لبیک " ان کی نظر سے گزر چکی تھی ۔
کہا : تمھارے ممتاز مفتی کی گہماگہمی سے دل میں تو بہت گہماگہمی ہوئی ۔ مگر اس خوف سے کہ اگر یہ کتاب بچوں نے پڑھ لی تو وہ خبیث بہت جلد جوان ہو جائیں گے ، میں نے یہ کتاب کوارٹر ماسٹر کے اسٹور میں رکھوا دی ۔
حج کا قصہ کیا تو کسی نے ان کی " لبیک " لا دی ۔ خیال تھا کہ اس سے منی اور مزدلفہ کی Map reading سمجھنے میں کچھ مدد ملے گی ۔ مگر بھائی ہمیں تو اس سے یہی پتہ نہیں چلا کہ یہ کتاب حج کی طرف بلاتی یے یا حج سے روکتی ہے ۔
ہمارے فوری مسئلے کے بیچ کرنل صاحب نے فرمایا ۔ مجھے حیرت ہے کہ تم اپنی کتابیں خود لکھتے ہو ۔ امریکہ میں تو مصنف کوئی ہوتا ہے اور کتاب کوئی لکھتا ہے ۔ جس طرح ایشیا میں آج بھی کئی ایسے ملک موجود ہیں کہ ملک کسی اور کا ہوتا ہے اور حکومت کوئی اور کرتا ہے ۔
میرے گھر میں مفتی کی دو کتابیں ہی تھیں ۔ " علی پور کا ایلی " اور " روغنی پتلے " ۔ میں نے سوچا علی پور کا ایلی ان کو دے دوں جو لحافوں والے صندوق میں پڑا تھا ۔ بیوی کہتی رہتی تھی کہ اس کتاب نے خواہ مخواہ ایک لحاف کی جگہ گھیر رکھی ہے مگر جب کرنل صاحب نے " علی پور کا ایلی " دیکھا تو کچھ دیر تک دیکھتے ہی رہے ۔ جیسے سکتے میں رہ گئے ہوں ۔ میں نے پوچھا :
" کیا سوچ رہے ہیں "
بولے ۔۔۔ابھی تو میں فوکسی پر آیا ہوں گھر جا کر " علی پور " کی ٹرانسپورٹیشن کے لئے Pick - up بھجواتا ہوں ۔
بڑھاپا ، ماہ و سال سے نہیں ، ارادے سے آتا ہے ۔ ممتاز مفتی کبھی بوڑھا نہیں ہو گا ۔ ایک مرتبہ آپ اسپتال میں جا لیٹے ۔ میں عیادت کو گیا تو ان سے اپنی حماقت پر ایسی ایسی پھبتیاں سننا پڑیں کہ الٹا اپنے آپ پر نادم ہو گیا ۔
کہنے لگے گھر والوں اور دوستوں کو کچھ شتر غمزے دکھانا مقصود تھے ۔ ابھی وہیں بیٹھے تھے کہ ان کا ایک نوجوان ارادت مند ، عیادت کے لئے آ گیا ۔ اس سے فرمایا :
" برخوردار ، مجھے امید ہے تم میری اگلی سالگرہ پر ملنے آو گے ۔
ماشاءاللہ ۔ تمھاری صحت تو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ "
میٹھا پانی ۔۔۔۔۔۔ سید ضمیر جعفری
0 Comments