شکوہ

نظم۔۔۔شکوہ


علامہ ڈاکٹر محمد اقبال



کیوں زیاں کار بنوں۔۔سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں۔۔محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرّات آمیز میری تاب سخن ہے مجھکو
شکوہ اللہ سےخاکم بہ دہن ہے مجھکو
ہے بجا شوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا شکوۓ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

 تھی ازل سے ہے موجود تیری ذات قدیم

پھول تھے زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوۓ گل پھیلتی کسطرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمیعت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت تیرے محبوب کی دیوانی تھی
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی  ان دیکھے خدا کو کیوں
 کر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا
قوت بازو مسلم نے کیا کام تیرا
بس رہے تھے یہی سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چین ، چین میں ایران میں ساسانی بھی
اسی معمور میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی 

پر تیرے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے

تھے  ہم ہی اک تیرے معرکہ آراوں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاوں میں
دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تبتے ہوۓ صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ ججتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے تیرے نام کی عظمت کے لئے
تھی نہ کچھ تیخ زنی اپنی حکومت کے لئے
سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لئے

قوم اپنی جو زر مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
  پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
 تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

تو ہی کہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے آقار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدہ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
ارو تیرے لئے زحمت کش پیکار ہوئی
کسکی شمشیر جہانگیر جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئی

کس کی ہیبت سے صنم سہم ہوۓ رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو اللہ اعد کہتے تھے

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ روہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگۓ محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوۓ
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوۓ

محفل کون مکاں میں سحرو شام پھرے
مۓ توحید کا لیکر صفت جام پھرے
کوہ میں دشت میں لیکر تیرا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے

دشت تو دشت تھے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادیے گھوڑے ہم نے

صفحہ دہر باطل کو مٹایا ہم نے
نوح انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآں کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

امتیں اور بھی ہیں ان میں گناہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مئے پیندار بھی ہیں
ان میں کامل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ تیرے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تیرے اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دباۓ ہوۓ قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور و قصور
اور بیچارےمسلماں کو فقط وعدہ حور

اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت ہے جسکی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب
دہرو دشت ہو سیلی ذدہ موج سراب

طعن اغیار ہے رسوائی وفاداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لئے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوۓ اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبع کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آۓ عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر


درد لیلیٰ بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی
بخود کے دشت جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی تو بھی وہی

پھر یہ آزردگئ غیر سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چم غضب کیا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
 مضطرب دل صفت قبلہ ا بھی نہ سہی
اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

سرفاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
ایک اشارے میں ہزاروں کے لئے دل تو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمئ رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
قیس  دیوانہء نظارہء محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوۓ محفل ماباز آئی
























Post a Comment

0 Comments