بغیر منبر والے طالب جوہری


 بغیر منبر والے طالب جوہری!

 کالم از وسعت اللہ خان، بی بی سی اردو

 اکتوبر 1991، شمالی لندن۔ بی بی سی کی نوکری اختیار کیے پانچ ماہ گزر گئے۔ اس دوران میرا صرف ایک گھر میں آنا جانا کھانا پینا تھا۔ جعفر بھائی اور فیروزہ جعفر عرف بجیا کا گھر۔
 جعفر بھائی نے ایک دن پوچھا ارے کراچی میں ہمارے ایک بھتیجے بھی رہتے ہیں طالبِ جوہری، کبھی ان سے ملاقات ہوئی؟ میں اچھل پڑا۔ آپ کے بھتیجے ہیں علامہ؟ ہاں تو کیا ہوا، کیا علامہ لوگ کسی کے بھانجے بھتیجے نہیں ہو سکتے؟
 اور پھر لگ بھگ ایک ماہ بعد بجیا نے فون کیا وہ آ گئے ہیں تمہارے علامہ، ملنا ہے تو آ جاؤ۔ ہم بجیا کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل دوری پر ایک سٹوڈیو فلیٹ میں رہتے تھے۔ یہ تصور ہی کتنا زبردست تھا کہ جس شخص کو کبھی کبھار عشرے کی مجالس میں ہزاروں کے مجمع میں بیٹھ کر سنا ان سے آج بالمشافہ ملاقات ہو گی۔
دلیل اور بیان کی علامت‘ ا
 علامہ سفید کرتے پاجامے میں صوفے پر ایک ٹانگ رکھے اور دوسری لٹکائے بیٹھے تھے۔ تپائی پر ڈن ہل کا پیکٹ اور ایش ٹرے اور قہوے کا کپ۔ میں برابر بیٹھنے کے بجائے احتراماً نیچے بیٹھ گیا۔ بولے ’میاں یہ کیا۔ یہ ڈرامے بازی مت کرو۔تمہاری بجیا نے تمہارے بارے میں ہمیں پہلے ہی سے بتا دیا ہے۔ اوپر بیٹھو۔‘
 لگ بھگ 15 دن علامہ بجیا کے گھر رہے۔ دونوں کے درمیان خوب نوک جھونک ہوتی تھی اور آخر میں علامہ کہتے پھوپھو ہم تم سے نہیں جیت سکتے مگر ہمارا منہ بند کروانا ہے تو کچھ میٹھا کھلواؤ۔ چنانچہ کبھی کھجور، کبھی انبالے کی مٹھائی، کبھی کھیر کبھی کچھ حتیٰ کہ رات دو بجے بھی گفتگو کرتے کرتے نعرہ بلند کر دیتے ارے کوئی ہے جو عاشقِ چہاردہ معصومین کو میٹھا پیش کرے۔
 دوسرا یا تیسرا دن ہوگا جب ہم حاضری بھرے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے میاں دنیا کے ہی ہو یا دین وین سے بھی کچھ دلچسپی ہے۔ میں نے بتایا کہ قران کا پہلا اور 30واں پارہ پڑھا ہے۔ سکولی اور غیر نصابی کتابوں میں واجبی سی اسلامی تاریخ پڑھی ہے،بس۔ کہنے لگے اچھی بات ہے کہ تم نے اسلامی تاریخ واجبی سی پڑھی ہے، زیادہ گہرائی سے پڑھتے تو خاموش ہو جاتے یا پھر کج بحث۔
 سن اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔ اس سیریز کے چند پروگرام میں نے بھی دیکھ رکھے تھے۔ چنانچہ جب علامہ لندن آئے تو میں نے کہا کہ جب تک آپ یہاں ہیں میں چاہتا ہوں کہ کم ازکم سورہِ فاتحہ سمجھنے میں میری مدد کریں۔ علامہ نے فوراً کہا جب چاہو جتنا چاہو۔
 اس کے بعد نو دس دن تک علامہ روزانہ کوئی ایک موضوع لے لیتے جیسے الحمد، رب العالمین، یوم الدین، نستعین وغیرہ۔ اور آدھا پونا گھنٹہ پرت در پرت سببِ نزول، ماخذ، تاریخی پس منظر اور منطق کے سہارے ایسے لے کر چلتے گویا بچے کو کہانی سنا رہے ہوں۔
 شاید یہ عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس حضرت قاسم الخوئی، باقر الصدر اور دیگر علمائے عظام کے آگے زانو تہہ کرنے، عربی و فارسی پر عمومی دسترس اور عرب و عجم کی تاریخ فہمی کا فیض تھا کہ علامہ کی مذہبی و غیر مذہبی گفتگو ادق مسائل کا احاطہ ضرور کرتی تھی مگر ان کی اجتہادیت مشکل پسندی اور علمیت کے مصنوعی دبدبے سے بالکل آزاد تھی۔ اسی لیے عام آدمی بھی بلا امتیازِ مسلک و نظریہ بلا دھڑک ان کی جانب کھنچتا تھا اور پورا پورا ابلاغی لطف کشید کرتا تھا پھر علامہ پاکستان لوٹ گئے اور پھر لگ بھگ پندرہ سولہ برس بعد ان سے انچولی کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ میں نے فون کیا تو اتفاق سے علامہ نے ہی اٹھایا۔ جیسے ہی کہا السلام و علیکم، دوسری جانب سے وعلیکم السلام کے بجائے آواز آئی ’لندن سے بات کر رہے ہو بدمعاش یا کراچی میں ہو‘۔ میں علامہ کی اس غیرمعمولی یادداشت و سماعت پر ششدر رہ گیا۔ پندرہ سولہ برس پہلے محض چند دن کی ملاقاتوں کے باوجود ہزاروں آوازوں میں سے کسی ایک آواز کو پہچان لینا۔اف یہ آدمی ہے یا جن؟
 اس کے بعد ہر پانچ چھ ماہ بعد حاضری ہو جاتی۔ نیچے عشا کے بعد سے فجر تک کھلی کچہری جس میں ہر طرح کے موضوع سے لدا پھندا شخص ہر طرح کی کھانے پینے کی اشیا لا رہا ہے۔ اس کچہری میں دو طرفہ گفتگو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ علامہ دوسری، تیسری حاضری میں میری بےچارگی بھانپ گئے اور انھوں نے محمد علی سید سے کہا آئندہ عصر تا مغرب ملاقات طے کرتے ہیں۔
 اس کا فائدہ یہ ہوا کہ علامہ کے گھر کی اوپر والی منزل میں قائم لائبریری میں ہر چند ماہ بعد گھنٹہ، 45 منٹ کی ملاقات ہو جاتی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔ بقول محمد علی سید علامہ نے بلاشبہ ہزاروں مجالس پڑھیں مگر ہر مجلس کی تیاری وہ ایسے انہماک اور محنت سے کرتے گویا سپریم کورٹ میں آخری پیشی ہو۔
 لائبریری میں علامہ خود کو بیرونی دنیا سے محفوظ سمجھتے تھے۔ انہیں طرح طرح کے قہوے اور کھجوریں کھانے اور کھلانے کا شوق تھا۔ ہر طرح کے قہوے اور کھجور کی تاریخ بھی ساتھ ساتھ بتاتے جاتے۔ کہتے تھے میرا بس چلے تو کھجوروں اور قہوے کی اقسام کا ایک پورا عجائب گھر بناؤں۔
 علامہ چونکہ اکثر مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔
 رفتہ رفتہ علامہ کی فراخدلی جراتِ سوال کی عادت بڑھاتی چلی گئی۔ ایک بار میں نے اچانک پوچھ لیا کہ علامہ میں نے آپ کی بہت زیادہ مجالس تو نہیں سنیں البتہ جتنی بھی سنی ہیں وہ تبرے سے پاک ہوتی ہیں۔ فرمایا ’جب باورچی کام میں کچا ہو تو اسے اپنی فنی خامیاں چھپانے کے لیے مصالحہ تیز رکھنا پڑتا ہے۔ میری تو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ جو موضوع شروع کیا ہے وہ سمیٹوں کیسے لہٰذا دھیان کبھی خواہ مخواہ کی باتوں کی جانب پھٹکتا بھی نہیں۔ امید ہے آپ کی تشفی ہو گئی ہو گی‘۔
 سیاست پر بہت کم یا تمثیلی انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ ایک بار ایران سے ہو کر آئے اور طلب فرما لیا۔ تفصیل سے سفر کا احوال بتاتے رہے۔ میں نے درمیان میں پوچھا کہ آج کل وہاں کرپشن کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، آپ کا کیا تاثر ہے۔کہنے لگے کہ 'اس بار جب میں تہران سے قم جا رہا تھا تو ٹیکسی والا میرا جبہ عمامہ دیکھ کر خاصا چپ چپ رہا مگر جب میں نے اس کی روزمرہ زندگی کریدنی شروع کی تو کھلتا چلا گیا۔ کہنے لگا آغا یہ بتائیے کہ آپ نے جو جبہ پہنا ہے اس میں کتنی جیبیں ہیں،میں نے کہا دو۔ کہنے لگا آغا یہاں تو ہر جبے میں جیبیں ہی جیبیں ہیں اور بھرتی ہی نہیں۔ اب تم ڈرائیور کے اس قصے سے جو چاہے اپنا صحافیانہ مطلب نکال لو۔‘
 علامہ علومِ قرانی پر تو ملکہ رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی۔ بطور گواہی تین شعری مجموعے حرفِ نمو ، پسِ آفاق اور شاخِ صدا بھی پسماندگان میں چھوڑے۔
 اول اول علم فقط اک نقطہ تھا
 آخر آخر جہل بنا تاویلوں سے
 جسم کی خیمہ گاہ میں کتنے ہم زادوں کا ڈیرہ تھا
 ایک اکیلی روح کہاں تک ان میں بسر اوقات کرے
 وحشتِ دل پر صبر کا نسخہ سب نے ہی تجویز کیا
 جب پرکھا تو نسخہ لکھنے والے ہی بیمار ملے
 کم ہی لوگ واقف ہیں کہ علامہ صنعتِ اہمال یعنی لایعنی شاعری میں بھی یدِ طولی رکھتے تھے اور سخنوروں کو چیلنج کرتے تھے کہ کوئی ایسا مصرعہ لکھ کے لاؤ جس کا کوئی مطلب نہ ہو۔ اس صنف میں علامہ نے بیسیوں اشعار کہے جن کا ریکارڈ جانے کس کے پاس ہو گا البتہ بطور نمونہ صنعتِ اہمال میں دو شعر حاضر ہیں۔
 کھڑکی سے بھاگتی تھی دلہن حادثات کی
 گھوڑا لیے کھڑا تھا پتیلی حیات کی
 جب مرغ آگہی نے پپیتے میں سر دیا
 نیولے کو میں نے مژدہِ رنگِ سفر دیا
 ایک دفعہ بہت ہی شگفتہ موڈ میں کہنے لگے میاں تم اتنے باصلاحیت ذہین آدمی ہو، شیعہ کیوں نہیں ہو جاتے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا اعلیٰ حضرت میں تو کب کا شیعہ ہو جاؤں مگر علامہ ضمیر اختر نقوی (لڈن جعفری) کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ سنی رہنے میں کیا برائی ہے۔ اس پر علامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ’بہت بدمعاش ہو تم بہت ہی زیادہ۔‘
 علامہ 81 برس کی عمر میں چلے تو گئے بس یہ شکایت ہے کہ قحط الرجال کے لق و دق بیابان میں پہلے ہی کتنے شجرِ سایہ دار بچ گئے تھے جو ایک اور کم پڑ گیا۔ ایسے بڑے آدمی کا ذیابیطس، دل کے عارضے وغیرہ کے ساتھ اوپر جانا اچھا نہیں لگتا۔
 کیا کہا؟ ان کا خلا ایک طویل عرصے تک پر نہیں ہو سکے گا۔ مجھے تو شک ہے وہ خلا بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے۔

Post a Comment

0 Comments