گلگت میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟
کل 30 جولائی کو یادگار چوک گلگت میں نامعلوم ملزمان کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں دو بے گنا افراد اپنی قیمتی جانوں سے گئے اور ڈیڑھ درجن سے زیادہ افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف گلگت شہر میں بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام میں شدید بے چینی، احساس عدم تحفظ اور غم و غصہ پیدا ہو گیا ہے۔ قطع نظر فرقہ وارانہ تفریق کے جی بی کے تمام اضلاع اور خاص کر گلگت، دیامر، بلتستان اور نگر کے علماء اور سیاسی و مزہبی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے اس افسوسناک واقعے کی شدید مزمت کرتے ہوئے اسے جی بی میں پُرامن ماحول کو تباہ کرنے اور عوام کو پھر سے فرقوں میں تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ بظاہر محرم الحرام کی آمد آمد پہ ایسا دلخراش واقعیہ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کی سازش نظر آتی ہے مگر کسی بھی مزہبی تنظیم نے اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے اجتناب کیا اس سے یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سال 1988ء سے لیکر 2013ء کے دوران رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات جن کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے گئے، کے تلخ تجربات نے جی بی کے عوام کو بہت کچھ سمجھا دیا ہے جو ایک خوش آئیند بات ہے۔اپوزیشن پارٹیوں نے جی بی میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت پہ کڑی تنقید کرتے ہوئے اس دہشت گردانہ واقعے کو حکومتِ وقت کی ناکامی قرار دیا ہے اور اس واقعے کی جوڈیشیل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ محرم الحرام کی شروعات میں رونما ہونے والی اس دہشت گردی کے واقعے کو یقینی طور پہ روکا جا سکتا تھا اگر جی بی حکومت اور مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت دونوں محرم کے آغاز سے قبل ہی گلگت شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرتیں۔مگر جی بی کے ساتھ اسلام آباد میں پی ڈی ایم دونوں حکومتیں اس میں بری طرح ناکام ہو گئیں ہیں پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت کی تمام تر توجہ آئی ایم ایف کو خوش کرکے قرض کی اگلی قسط منظور کرانے کیلئے عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھانے پہ لگی ہوئی ہے جبکہ جی بی میں پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے عوام کی حفاظت کا فکر ہونے کی بجائے بنی گالا میں عمران خان کی حفاظت کی فکر کھائے جا رہی ہے اور جی بی ایلیٹ فورس کی ایک بڑی تعداد کو بنی گالا کی حفاظت پہ معمور کیا ہوا ہے جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے جوڈیشیل کمیشن قائم کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے یہ دراصل اس مسلئے کو منوں مٹی تلے دبانے کی کوشش ہے۔ قبل ازیں 1988ء کے سانحے سے ابتک مختلف سانحوں کی تحقیقات کیلئے چار جوڈیشیل کمیشنیں بن چکے ہیں مگر آج تک کسی کمیشن رپورٹ پہ ایکشن لینا تو دور کی بات ان میں سے کسی جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ اب تک پبلک نہیں کیا گیا ہے اسلئے حکومت کی طرح اپوزیشن پارٹیاں بھی نامعلوم وجوہ کی بنا پہ اس واقعے میں ملوث مجرموں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہمارے جیسے ایک طبقاتی سماج میں جہاں ایک طرف سرمایہ دار اور دیگر مراعات یافتہ طبقے ہیں تو دوسری طرف محنت کش ،غریب کسان اور کچلے ھوئے طبقات ہیں طبقاتی طور پہ تقسیم اس سماج میں صرف حکمرانوں، وزراء، مشیروں،بڑے سیاستدانوں ، مزہبی رہنماؤں کے علاوہ پولیس، سویلین انتظامیہ اور دیگر اداروں کے عہدیداران کو فاؤل پروف سیکیورٹی دیا گیا ھے جبکہ عام جنتا کو دھشت گردوں کے رحم و کرم پہ رکھا گیا ھے یہی وجہ ھے کہ دھشت گردی و قتل و غارت گری اور دیگر حادثات میں غریب لوگ ہی ایندھن بنتے ہیں۔ عوام کی خدمت اور انکی جانب مال اور عزت کی حفاظت کیلئے غریب عوام کا ہی پیٹ کاٹ کر اتنے سارے سیکیورٹی ادارے،پولیس، رینجرز، ایف۔ سی جی بی سکاؤٹس اور خفیہ ایجنسیاں قائم کئے گئے ہیں مگر ان اداروں کو صرف افسرشاہی اور حکمرانوں کی حفاظت پہ لگایا گیا ھے
اب وقت آ گیا ھے کہ عام جنتا کی طرف سے ایک تحریک شروع کی جائے کہ تمام پولیس و سویلین انتظامیہ افسران، مزہبی و سیاسی رہنماؤں اور وزراء مشیروں اور نام نہاد وی وی آئی پیز کی سیکیورٹی مکمل طور پہ ختم کی جائے اور جس دن ان حکمرانوں اور افسرشاہی سے سیکیورٹی واپس لی گئی تو اسکے بعد گلگت بلتستان اور پورے پاکستان میں کوئی قتل و غارت گری نہ ھو گی اور نہ کسی کی عزت پہ حملہ ھو گا اور نہ کوئی جنسی ہراسانی کا کوئی واقعہ رونما ھو گا۔ مگر حکمرانوں اور افسرشاہی کی سیکیورٹی کا خاتمہ اور افسرشاہی کو عوام کے سامنے جوابدہ صرف سوشلسٹ نظام میں ہی ممکن ھے
تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ
x
0 Comments