ریاض حسین داور حساب معمول دیہاتی لڑکا اپنے دو گائے لیکر کوہل کے ساتھ چلتا ہوا چراگاہ کی طرف بڑھتا ہے کوہل شہر سے کافی اونچائی پر ہوتا ہے جہاں سے تقریبا سارا شہر نظر آتا ہے۔شہر کیا ہے ایک قصبہ ہے جو چاروں طرف سے ااونچے پہاڑوں سے گھیرا ہوا ہے شہر کے وسط سے ایک دریا گزرتا ہے جو آگے دور تک پھیلے ہوے پہاڑوں کے مختلف نالوں اور چشموں سے بنتا ہے دیہاتی لڑکے کے دونوں گائے کوہل کے اندر چر رہے ہیں ابھی کوہل میں پانی نہیں آیا ہے۔کوہل کا چوکیدار ایک ساٹھ سالہ بوڑھا ہے جو ہر صبح شہر سے پانچ کلومیٹر دور مغرب میں بہنے والے ایک بڑے نالے سے کوہل میں پانی لاتا ہے جس سے سرکاری باغات کے علاوہ مضافاتی گاؤں کے کھیت کھلیان اور جنگلات سیراب ہوتے ہیں۔کوہل کا چوکیدار دیہاتی لڑکے کا دوست ہے ان کے علاوہ قریبی محلے کا ایک شاعر بھی اپنی ایک عدد گائے اور بھیڑ لیکر آتا ہے شاعر بھی ساٹھ برس کا ہے وہ جوانی کی غلطیوں کو شاعری کا نام دیا کر اکثر گنگناتا رہتا ہے اور اپنی شاعری کی طرح وہ خود بھی سادہ بلکہ بیوقوفی کی سرحدوں کے قریب ہوتا ہے ۔کبھی کبھار ایک بوڑھی عورت بھی ایک عدد بھیڑ کے ساتھ نمودار ہوتی ہے کافی میلی کجھلی اور اس کے حرکات و سکنات بھی عجیب ہوتے ہیں اور وہ باقی لوگوں سے دور بیٹھتی ہے شاعر آہستہ سے کہتا ہے یہ چڑیل ہے ۔کوہل کے چوکیدار کے علاوہ سرکاری باغات کے تین اور مالی ہوتے ہیں جو پانی کے دیری ہونے پر چراگاہ تک اجاتے ہیں اور تینوں اونچا سنتے ہیں۔ان کی عمریں ساٹھ پچاس اور تیس سال ہوتی ہیں یہ جب کوہل کے ڈھلوانوں میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو نشیبی محلوں کے سارے مکین ان کی باتیں سن سکتے ہیں
ساٹھ سالہ مالی ان کا انچارچ ہوتا ہے اور کاہن ہوتا ہے جو چڑیلوں پریوں اور جنات کو ایک خاص عمل کے ذریعے تابع کرتا ہے اور ان کے ذریعے کسی انسان کو جن پڑ جائے پری کا دخل اور یا چڑیل چمڑ جاے تو وہ علاج کرتا ہے کاہنوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جس کے تابع پریاں اور دیو ہوتے ہیں وہ سچی خبر دیتے ہیں اور مثبت رائے دیتے ہیں جن کے تابع چڑیلیں ہوں وہ جھوٹی خبریں دیتے ہیں اور منفی مشورے دیتے ہیں اور جس کے تابع جن چڑیل پری اور دیو سب ہوں وہ بھی زیادہ بھروسے کے قابل نہیں ہوتے ہیں پچاس سالہ مالی جس کے پیٹھ پر ایک بڑا گومڑ ہوتا ہے یہ چڑیلوں کا " میٹو" ہوتا ہے جو دراصل نر چڑیل ہوتا ہے چڑیلیں اس کے اوپر رکھ کر گوشت کاٹتی ہیں جیسے قصائی کے گوشتکا پھٹہ ہوتا ہے جس سے ایک لطیفہ منسوب ہے کہ ایک اندھے نے اس کو ٹٹولا یہ خاموش رہا تو اندھے نے مشہور کردیا کہ محلے میں دو سروں والا جن پھر رہا ہے تیسرا تیس سال کا ہے جس کی سوچ بچار کی فرکونسی بھی قدرت نے محدود رکھی ہے ۔ان کی آپسی گفتگو میں ان کی تنخواہ غیر حاضر کی برائی کے علاوہ جنسیات نمایاں موضوع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ میلی کجھلی گجری عورت بھی فاصلے پر رہتی ہے اور اپنی گجری زبان میں ان کو لعن طعن کرتی ہے اور یہ قہقہے لگاتے ہیں جو کہ نشیبی محلوں سے بھی آگے تک جاتے ہیں
کوہل کا چوکیدار " پشو" ہوتا ہے جس کا مطلب انسانوں کو چڑیلوں سے چھڑانے والاہے اس کی چھٹی حس بڑی تیز ہوتی ہے یہ چڑیلوں سے مذاکرات کا ماہر ہوتا ہے اکثر مال مویشی کے عوض انسانی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے میلی کجلی عورت کو دیکھ کر کوہل کے چوکیدار نے ایک واقع بیان کیا۔
ایک رات ایک بجے کے قریب میں نے دیکھا کہ بالائی نالے کی طرف سو کے قریب چڑیلوں کا ایک جھنڈ بڑے شور شرابے کے ساتھ ایک آدمی کو ہوا میں اچھالتے ہوے جارہے ہیں جیسے جیتی ہوئ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہوا میں اچھالا جاتا ہے میں نے ان کو نالے کے ایک گھاٹی میں روکا تو دیکھا وہ شاعر تھا میں نے شاعر چھوڑنے کو بولا انہوں نے انکار کیا میں نے بدلے میں کچھ لیکر چھوڑنے کو بولا انہوں نے شاعر کی گائے مانگی میں نے قبول کیا اور شاعر کو چھوڑایا یہ عورت بھی ان چڑیلوں میں موجود تھی شاعر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک رات اچانک سخت بیمار ہو گیا صبح پشو کے کہنے پر اپنی گائے ذبح کر کے صدقہ دیا اور ٹھیک ہوگیا واقعہ سن کر دیکھا تو بوڑھیا اپنی بھیڑ کے ساتھ غائب ہو چکی تھی
اگلے دن دیہاتی لڑکا اپنے دو گائے کے ساتھ چراگاہ تھا کہ وہ چڑیل اپنی بھیڑ کے ساتھ آگئی لڑکے نے سلام دعا کے ساتھ گپ شپ شروع کی اور پشو کا واقعہ سنایا اور بولا تم چڑیل ہو بتاؤ کیسے انسانوں کو کھاتے ہو اس نے انکار کر دیا لڑکے نے کہا ٹھیک ہے وہ پشو کو اس کے محلہ لائے گا اور سب کو پتہ چلے گا تم ایک چڑیل ہو بوڑھیا ڈر کر مان گئی اور لڑکے کو رات دس بجے بالائی پہاڑوں کے قریب آنے کا بولا۔لڑکا پہنچ گیا وہ اس کو لیکر پہاڑوں کی طرف گئی جہاں بہت ساری عورتوں کی آوازیں آرہی تھیں بوڑھیا بولی تم ادھر چھپ کر دیکھو پھر وہ چڑیل بن گئی اس کے پاؤں مڑ گئے بال بکھر گئے اس کی شکل بدل گئی وہ جاکر چڑیلوں میں شامل ہو گئی وہ سب ایک دائرہ بنا کر کھڑی ہو گئیں گجری بوڑھیا کے ہاتھ میں ایک انار تھا وہ ساتھ والی کو دیتی ہے وہ پھر اپنے ساتھ والی کو دیتی ہے اس طرح واپس انار گجری بوڑھیا کے پاس آ جاتا ہے وہ اسے توڑتی ہے تو اندر سے دھواں نکلتا ہے اس کا مطلب تھا کہ چڑیلیں اس طرح کھاتی ہیں پھر ان کا اجلاس شروع ہوتا ہے کہ آج کیا کرنا ہے کیدھر جانا ہے اچانک ایک خوفناک آواز آتی ہے تو سب کے سر جھک جاتے ہیں ایک بدصورت بوڑھیا نمودار ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی ہے وہ چڑیلوں کی صوبائی صدر ہوتی ہے وہ ایک اونچی چٹان پر بیٹھ جاتی ہے اور تقریر شروع کرتی ہے کہ انسان نے ہمیں شہروں سے نکال کر دیہاتوں جنگلوں اور پہاڑوں میں دھکیل دیا اب انسان نے جنگلوں اور پہاڑوں میں چھڑخانی شروع کر دی ہے یعنی وہ یہاں سے بھی ہمیں نکالنا چاہتا ہے مطلب وہ ہماری نسل کشی پر تلا ہوا ہے لہذا آ نے والے ہفتے کو کوہ قاف میں ایک بین الاقوامی اجلاس ہورہا ہے جس میں دنیا بھر کے جن بھوت پریاں اور چڑیلیں شرکت کریں گی اور اپنا سربراہ منتخب کریں'گے سربراہی اس علاقے کو دی جائے گی جو جنگلوں اور پہاڑوں میں گھس بیٹھے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے لہذا تم لوگوں نے اس ہفتے کو ہفتے جنگ منانا ہے تاکہ یہاں کے وادیوں اور پہاڑوں میں رہنے والے انسان تمہارے شر سے بھاگ کر شہر میں جا کر دم لےاس عزم کے وعدے وعید کے ساتھ اجلاس ختم ہو گیا کہ ان بلند وبالا پہاڑوں کو انسانوں سے ہر حال میں خالی کر وانا ہے پہاڑوں سے گھرے ہوئے اس شہر کا نام گلگت ہے جس کے نام کا مطلب ہی پہاڑوں سے گھری ہوئی جگہ کے ہیں گلگت شہر کے آ س پاس دس بارہ گاؤں آباد ہیں باقی قراقرم،ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں آن گنت گاؤں آباد ہیں
اچانک دوردراز وادیوں میں ناگہانی اموات ہونی شروع ہوتیں ہیں اس کا مطلب تھا کہ چڑیلوں پریوں اور جنوں نے جنگ چھیڑ دی تھی کئی عورتوں پر جنوں اور پریوں کا سایہ ہوگیا تھا اور وہ ہوش حواس کھو بیٹھی تھیں کئی مرد بھی ان کا شکار ہو کر پرتشدد کارروائیاں کر رہے تھے
کوہل کا چوکیدار تین دن ناغے کی بعد آزاد چراگاہ میں دیہاتی لڑکے سے ملتا ہے شاید وہ بیمار پڑ جاتا ہے لڑکا اس کو چڑیلوں کے منصوبے سے آ گاہ کرتا ہے وہ دونوں کاہن کے پاس جاتے ہیں تینوں ملکر گلگت شہر کے مختلف محلوں میں جا کر لوگوں کو آ نے والے حالات کے بارے میں متنبے کرتے ہیں ہر محلے میں جا کر کاہن کو ایک بڑے میدان میں جنگلی سرو کا دھواں کھلاتے ہیں پھر وہ نادیدہ قوتوں کو دیکھتا ہے اپنی تابع پریوں وغیرہ سے ان کے مستقبل کے پروگرام کے بارے میں دریافت کرتا ہے جو انسانوں کو ان پہاڑوں اور وادیوں کو چھوڑ کر جانے کو بولتیں ہیں گلگت شہر پر چڑیلوں پریوں اور جنوں کے عنقریب ایک بڑے حملےکی دھمکی دیتی ہیں ایک ہفتے کے اندر گلگت شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر جاتے ہیں اور دور دراز کے وادیوں سے لوگ گلگت کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں وادیاں ویران ہو جاتی ہیں جہاں بھیڑ بکریاں گائے اور دوسرے جانور آ زاد گھومتے ہیں جس سے ہرے بھرے کھیت کھلیان اور باغات تباہ ہوجاتے ہیں۔اگرچہ گلگت بلتستان کی وادیوں میں اعلیٰ پائے کے کاہن اور پشو چڑیلوں پریوں اور جنوں کے خلاف میدان میں موجود تھے مگر لوگوں میں خوف و ہراس اس قدر تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ رہے تھے
گلگت سے چڑیلوں پریوں اور جنوں کا وفد کوہ قاف پہنچاتا ہے جہاں دنیا بھر سے آ ئے ہوئے چڑیلوں پریوں اور جنوں کے سربراہ موجود ہوتے ہیں تاکہ اپنے نئے عالمی سربراہ منتخب کر سکیں
سارے عالم کے حالات و واقعات کو دیکھ کر اس سال کے سربراہ نادیدہ مخلوق کا کرہ گلگت کی چیڑیلوں کے نام نکلتا ہے اور گلگت کی ایک بھیانک چڑیل کو عالم نادیدہ مخلوق کی ملکہ کا تاج پہنایا جاتا ہے اگرچہ اس کو جن اور پریاں ناپسند کرتی ہیں مگر پی جاتی ہیں جب یہ وفد گلگت پہنچاتا ہے تو اس کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے گلگت کے مضافاتی گاؤں کے نالے میں ایک جگہ کپری میں ایک ہفتے تک جشن منایا جاتا ہے اس جشن میں میٹو مالی کافی سرگرم نظر آ تا ہے جشن کے ہر روز ایک ایسے شخص کو کھایا جاتا ہے جو انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے اس طرح ان سات دنوں میں گلگت و مضافات کے مشہور عالم شاعر اور کاہن ایک ایک کرکے انتقال کر جاتے ہیں
اب گلگت شہر میں دفاع کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں کاہنوں پشووں کے علاؤہ عالم دین جوانوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی شروع کرتے ہیں جس میں محکمہ صحت کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں
جن کاہنوں کے تابع دیو اور پریوں ہوتی ہیں وہ یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ چیڑیلوں کو اپنا سربراہ نہیں مانتے ہیں اس کا فائدہ یہ بتایا گیا کہ وہ جنگ میں پریوں اور جنوں کو چڑیلوں سے الگ کریں گے اور خالی چڑیلوں سے نپٹنے میں آ سانی ہوگی
ادھر چیڑیلوں کا صدرمقام کپری میں چیڑیلوں کا جشن ہو تا ہے اور وہ گلگت شہر کو فتح کرنے کےلئے نکلتے ہیں
آدھی رات کو ایک فقیر آپنی گھڈری اور سوٹے کے ساتھ گلگت شہر میں داخل ہوتا ہے اور اس محلے میں جا تا ہے جہاں کاہن پشو اور چند لوگ بیھٹے ہوتے ہیں وہ ان سے بے نیاز ہو کر تھوڑی دور بیٹھتا ہے دیہاتی لڑکا جا کر اس کو سلام کرتا ہے حال حوال پوچھتا ہے کھانے کا پوچھتا ہے فقیر نمکین چائے اور نیلے نسوار کی فرمائش کرتا ہے لڑکا چائے لینے گھر جاتا ہے اور دوسرے لوگ فقیر کے پاس جا کر بیٹھ جاتے ہیں فقیر ان سے پوچھتا ہے کہ وہ رات گئے تک کیوں پریشان بیٹھےہیں کاہن سارا واقع بیان کرتا ہے فقیر کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں اور جیت تمھاری ہوگی۔
اگلے دن صبح گلگت شہر کے بالائی نالوں برمس اور نوپورہ سے چڑیلوں کے جھنڈ ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں مشرقی اطراف کے پہاڑوں سے جن اور مغربی طرف سے پریوں کے جھنڈ نظر آ تے ہیں
شہر کے شمال مغربی حصے میں میرائے ٹھوکو نامی ٹیلے پر چڑیل ملکہ کی سربراہی میں جنوں اور پریوں کے جرنیل جمع ہوتے ہیں
کاہنوں اور پشووں پر مشتمل وفد بھی فقیر کی ہدایت پر وہاں پہنچ جاتاہے ایک بزرگ کاہن کہتا ہے کہ حدود کا تعین کریں گے اور اپنے اپنے علاقوں میں۔ امن و امان سے رہیں گے جن اور پریاں راضی ہو جاتیں ہیں مگر چیڑیلوں کی ملکہ اس تجویز کو رد کرتیں ہیں اور پورا شہر خالی کر نے کو کہتی ہیں بزرگ کاہن پریوں اور جنوں سی مخاطب ہوکر کہتا ہے اب ہماری جنگ صرف چڑیلوں سے ہے ان سے نپٹنے کے بعد آپ لوگوں سے حد بندیوں پر بات ہوگی چونکہ کاہنوں کے تابع زیادہ تر جن اور پریاں تھیں وہ۔ آ پس میں مشاورت کے بعد جنگ سے الگ ہوجاتے ہیں اور دور پہاڑوں کی طرف جاتے ہیں
جنگ شروع ہوجاتی ہے عورتوں اور بچوں کو گھروں کے اندر بند کیا جاتا ہے میدان میں کاہن پشو اور علماء اور جوان کھڑے ہوتے ہیں ہر طرف شور وغل ہوتا ہے جو بھی عوت باہر نظر آ تی ہے اس کو پکڑ ا جاتا ہے اور ایک میدان میں جمع کیا جاتا ہے جہاں کاہنوں نے زمین پر لکیریں کھینچ کر حصار بنایا ہوا ہوتا ہے
فقیر ایک بوڑھے اخروٹ کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوتا ہے ملکہ چڑیل اس پر حملہ کرتی ہے مگر فقیر کے سوٹے کے وار سے زخمی ہو کر ایک چیخ کے ساتھ غائب ہو جاتی ہے اور جاتے جاتے کاہنوں کے حصار سے چڑیلوں کو چھڑا کر لے جاتی ہے احطیاطا صبح تک جنگی حالت ہی میں سب چوکس رہتے ہیں گلگت شہر کے مضافاتی علاقوں میں بیس کی قریب عورتوں کے بیمار ہونے کی خبریں آ تی ہیں کاہن ان سے ان مردوں کو ملنے سے منع کر تے ہیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا کاہنوں کا کہنا ہے کہ جو آ دمی چڑیل کو زخمی کرتا اگر وہ اس سے ملتا ہے تو چڑیل ٹھیک ہو جاتی ہے اور وہ آدمی بیمار ہو کر مر جاتا ہے اگر ملاقات نہ کرے تو چڑیل مر جاتی ہے لیکن دوسرے لوگ اس کی تیمارداری کر سکتے ہیں مگر چڑیل اس آ دمی کو دیکھنے کی شدید خواہش کرتی ہے
صبح جن اور پریاں اجاتے ہیں فقیر ان کو لیکر پہاڑوں کی طرف جاتا ہے ساتھ کاہن پشو اور دیہاتی لڑکا بھی ہوتے ہیں ۔ فقیر گڈری سے ایک شیشی اور ایک کنگھی نکالتا ہے شیشی الٹتا ہے تو پہاڑ ابشار جھلیں اور ندی نالے بن جاتے ہیں کنگھی پھنکتا ہے تو جنگل بن جاتا ہے پریاں اور جن خوش ہو کر اس نادیدہ جنگل میں جاتے ہیں
جہاں تک چڑیلوں کا تعلق ہے تو وہ انسانوں ہی میں سے ہوتی ہیں اور نامعلوم افراد کی طرع ہوتی ہیں گلگت بلتستان کے دومردراز وادیاں پھر سے آباد ہوتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار چڑیلیں چیھڑ خانی کرتی ہیں مگر وہاں پر موجو کاہن و پشو حالات کو سمبھال لیتے ہیں
0 Comments